اسلام علیکم


آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر یار دیکھنا

عاشق کا اپنے آخری دیدار دیکھنا

کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں منع ہے

چاکِ قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا

آنکھیں چرایوٴ نہ ٹک ابرِ بہار سے

میری طرف بھی دیدہٴ خونبار دیکھنا

ہونا نہ چار چشم اس ظلم پیشہ سے

ہشیار زینہار خبر دار دیکھنا

صیادِ دل ہے داغِ جدائی سے رشکِ باغ

تجھ کو بھی ہو نصیب یہ گلزار دیکھنا

گر زمزمہ یہی ہے کوئی دن تو ہم صفیر

اس فصل ہی میں ہم کو گرفتار دیکھنا

اس خوش نگہ کے عشق سے پرہیز کیجیو میر

جاتا ہے لے کے جی ہی یہ آزار دیکھنا

(میر تقی میر)